گمنام سمادھ کوریاں۔
تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر مذہب، ملت، قوم اور زبان کے لوگ آباد ہیں۔ جسکی بنیاد ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہے۔ اس سر زمین پر مختلف تہذیبوں نے جنم لیا۔ مختلف قوموں نے آنگھ کھولی۔ ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے اپنی مذہبی اور اور قومی روایات کے تحت یہاں تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان تاریخ ،تہذیب ،ثقافت ،آثار و باقیات سے بھی مالا مال ہے۔ چونکہ قیام پاکستان سے قبل یہاں سب مذاہب مل جل کر رہتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے اس سر زمین پر عظیم الشان تعمیرات کیں۔ جوکہ آج بھی اپنے بنانے والوں کے اعلی ذوق اور روایات کا پتہ دیتی ہیں ۔ہر قوم اپنے مذہبی مقامات سے خاص لگاؤ رکھتی ہے۔ اور اسے شایان شان طریقے سے تعمیر کرتی آئی ہے۔1947 ء کے بعد پاکستان کے تمام مذہبی و مقدس مقامات بند کر دئیے گئے بعد ازاں بڑے اور اہم مقامات تو بحال کر دئیے گئے۔ مگر بعض سکھ بانیوں سے منسوب گردوارے اور تاریخی مقامات بے آباد اور ویران ہوگئے ۔جنکے آثار اب بھی باقی ہیں ۔انہی میں سے ایک گمنام سمادھ ہے جو کوریاں نامی علاقے میں واقع ہے۔
لاہور شہر سے کوئی بائیس کلو میڑ دور برکی گاؤں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر کوریاں گاؤں آتا ہے۔ کوریاں گاؤں میں تاریخی حیثیت کی یہ سمادھ بر لب سڑک واقع ہے۔ یہ سمادھ ایک چھوٹے کمرے پر مشتمل ہے جس کا سائز 10x10 ہوگا۔ یہ سمادھ نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔ جس کے اندر خوبصورت پینٹنگز بنائی گئیں ہیں۔ فریسکو پینٹنگز کا عام رواج پایا جاتا تھا جو کہ اُن دنوں میں سکھوں کی مذہبی عمارات میں بنائی جاتی تھیں۔ ان میں مختلف مناظر کو محفوظ کیا گیا ہے اندرونی جانب خصوصا سکھ مذہب کے گُرو صاحبان کی شبہیات بنائی گئیں ہیں جو آج اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی تازہ معلوم ہوتی ہیں۔
بیرونی جانب پہلوانوں کی کُشتی کے مناظر ، شکار کرتے ہوئے مناظر ، پرندوں اور جانوروں کی شکلیں بھی بنائی گئیں ہیں ۔ یہ چھوٹا کمرہ نما عمارت ایک چھوٹے سے خوبصورت گنبد پر مشتمل ہے۔ نیچے سے یہ عمارت چوکور کمرہ نما ہے جس کے وسط میں گنبد تعمیر کیا گیا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے پر مختلف پھول بُوٹے بنائے گئے ہیں۔ باوجود کوشش کے ابھی اس کی تاریخ معلوم نہیں ہو سکی اس پر مزید تحقیق ابھی جاری ہے۔ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ اس گاؤں میں رہنے والے کسی رئیس سکھ کی ہوگی۔ لیکن ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
سال 2014 ء میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں یہ عمارت بری طرح خراب ہوئی ۔ باقی کسر ایک رات میں سڑک سے گذرنے والی اینٹوں کی ٹرالی نے پوری کر دی ڈرائیور کی لاپروائی کے نتیجے میں ٹرالی کا پچھلا حصہ گذرتے ہوئے اس عمارت کو لگا جس کی وجہ سے عمارت کا آدھا حصہ زمین بوس ہو گیا ۔ رات کے اندھیرے میں ڈرائیور فرار ہو گیا۔ یہ بات اس عمارت کے قریب رہنے والے ایک بزرگ نے بتائی ۔ اس کمرہ نما تاریخی عمارت کے بالکل ساتھ ہی نیچے کھیت معلوم ہوتے ہیں جو کہ سڑک سے چند فٹ نیچے ہیں ۔ لیکن دراصل یہ اس سمادھ سے متصل ایک بڑا تالاب تھا جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ خشک ہو گیا ۔ جو اب ایک خشک زمین کا قطعہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ عمارت اسی قطعہ سے منسلک ہے۔ اس عمارت کی بنیادیں ننگی ہو چکی ہیں جس سے روز بروز اینٹیں گرتی جا رہیں ہیں۔ اب حالت یہ ہے یہ تاریخی اور نایاب عمارت اپنے وجود کی بھیک مانگتی نظر آرہی ہے۔ اس عمارت کو ہنگامی طور پر بچانے کی ضرورت ہے۔ اگر اس تاریخی ورثے کی حامل عمارت کو نہ بچایا گیا تو یہ عمارت چند دنوں کی مہمان ہے۔