Monday, April 16, 2018

18 اپریل عالمی یوم تحفظ و آگاہیِ ورثہ


  عالمی یوم تحفظ و آگاہیِ ورثہ   


ورلڈ ہیر ٹیج ڈے کے حوالے سے خاص تحریر 
تحریر: سید فیضان عباس نقوی
ہر معاشرہ اپنی روایات ،تہذیب و تمدن ،خصوصیات ،باقیات اور ثقافت رکھتا ہے ۔جوکہ دوسروں سے منفرد ہوتی ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ اسکی یہ ثقا فت اور ورثہ آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے اور وہ انہیں اپنا لیں ۔اس طرح سے تہذیبی و ثقافتی ورثہ محفوظ اور زندہ رہ سکتا ہے ۔کسی بھی قوم ،معاشرے یا ملک کی تہذیب و ثقافت کی ترجمان تاریخی اہمیت کے حامل عمارات ،آثار و باقیات ہوتے ہیں۔جس سے منسلک تاریخ اسکی بناوٹ ،طرز تعمیر اس معاشرے کی خصوصیات کی عکاس ہوتی ہیں۔کوئی بھی معاشرہ اپنے تہذیب ثقافت کے تحفظ اور تسلسل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔یہ فریضہ تاریخ انجام دیتی ہے ۔تاریخ کے ذریعے معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے آئندہ نسلوں میں منتقل کرسکتا ہے ۔تاریخ نے تہذیب و ثقافت کی تعمیر اور نشوونما میں بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔اسکے بعد تاریخ دانوں ،مورخوں ،محققوں نے اپنے عمل سے اسکو زندہ رکھا ہوا ہے ۔آج کے دور میں یہ ذ مہ داری تعلیمی اداروں نے بھی لی ہوئی ہے ۔جہاں تاریخ بطور مظمون پڑھائی جاتی ہے ۔جس 
سے کافی حد تک تہذیب و ثقافت و روایات اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہیں۔
تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی ترقی اور تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اور تحقیقی عمل سے افراد میں تجسس اور تنقیدی جذبات کو جلا دی جائے ۔تجسس اور کھوج کو ابھارا جائے ۔اس طرح کسی بھی زندگی کے شعبہ کو دیکھیں کہ ہر کسی فرد نے کسی نہ کسی طریقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے ۔اپنے نظریات قائم کئے اُن پر کام کیا جس سے اس میدان کیلئے ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔تاریخ نویسی ایک ایسا معاشرتی عمل ہے جوکہ معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرتا ہے ۔حالانکہ معاشرہ ہی تاریخ کا خالق ہوتا ہے ۔مگر معاشرہ اس تاریخ کے زریعے ہی اپنے تہذیبی و ثقافتی کارناموں کو محفوظ کر کے انہیں اگلی نسل تک پہنچاتا ہے ۔بلکہ سابقہ تاریخی حالات و واقعات سے عبرت حاصل کر کے آنے والے وقت میں معاشرے کی اصلاح و ترقی کیلئے کام کی ترغیب دیتا ہے ۔ہر قوم اور معاشرہ چاہتا ہے کہ اسکی اقدار ،تصوارات ، خیالات ،آثار و باقیات کو تحفظ حاصل ہو ۔اور سب لوگ انکے بارے میں جانیں۔اسکی خاطر وہ مختلف اقدام اٹھاتا ہے ۔جس میں تاریخ نویسی ،تصاویر سازی ،مجسمہ سازی ،لوک کہانیاں شامل ہیں۔معاشرت اور اسکی روایات زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔طور طریقے بدل جاتے ہیں۔معاشرے کی تہذیبی و تاریخی ورثہ کی تشکیل نو ہوتی رہتی ہے ۔اگر معاشرہ کے اس ورثے کی اصلاح ،تبدیلی ،اضافہ اور تشکیل نو نہ ہو تو معاشرہ ایسا ہوتا جیسا کہ ہزاروں سال پہلے ہوتا تھا ۔پہاڑوں میں رہتا تھا ۔پتھر رگڑ کر آگ جلاتا تھا ۔جاہلیت کا زمانہ تھا ۔پتھروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتا تھا ۔تعلیم معاشرے کی تشکیل نو کرتی ہے ۔جسکے باعث معاشرہ زمانے اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو تبدیل کرتے ہوئے اپنی تعمیر و ترقی کرتا ہے ۔
معاشرتی ورثہ کی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جوکہ آنے والے وقتوں کیلئے درست یا فائدہ مند نہیں ہوتی ۔وقت گزرنے کے بعد انکی قیمت کم ہو جاتی ہے ۔یہاں تاریخ کا فرض بنتا ہے وہ ایسی غلط اور نا کارہ اقدار اور فرسودہ اور غلظ سوچ اور رسومات پر مبنی روایات کو ختم کر دے اور مفید اور معاشرے کے لیے سود مند روایات کو فروغ دے۔تاریخ کی ابتداء حد درجہ سبق آموز اور دلفریب ہے ۔انسان ابھی نیم وحشی دور اور قبائلی تمدن سے آگے نہیں بڑھا تھا کہ اسے اپنے آباؤ اجداد اور نامور لوگوں کے کارناموں کو محفوظ کرنے کا خیال آیا ۔یہ قبیلوں کے سردار ہوں گے جوکہ جسمانی اور ذہنی شعور کے اعتبار سے لوگوں میں ممتاز ہوئے۔انہوں نے سماج اور قوم کیلئے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہوگا ۔بہر حال آنے والوں نے انکی یاد کو محفوظ کرنا اپنا فریضہ جانا اور انکی زندگی کے واقعات و حالات کو قلم بند کیا ۔یہ عمل تاریخ نویسی اور تاریخ نگاری کہلاتا ہے ۔اس عمل نے صدیوں پرانے معاشروں کی تہذیب و ثقافت کو آنے والی نسلوں کو متعارف کیا اور انہیں اپنے اجداد کے حالات و واقعات سے روشناس کروایا ۔ورثہ وراثت سے نکلا ہے ۔ وراثت سے مراد ہر وہ چیز جو ہم اپنے آبائے کرام سے میراث پاتے ہیں حاصل ہونے والا ترکہ ہمارا ورثہ کہلاتا ہے ۔اورمعاشرتی ورثے کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔
ایک وہ جو رسم و رواج طور طریقے ، آداب و روایات ، لباس ، میل جول وغیرہ شامل ہیں۔
دوسرا وہ جو تاریخی عمارات ، تاریخی آثار و باقیات جو گذرے وقتوں کی تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں جن کو بنانے والوں کے جاہ جلال کا انداز ہوتا 
ہے ۔
عالمی تحفظ و آگاہی ورثے کا دن (یادگاروں اور جگہوں کا بین الاقوامی دن) 1982 میں ICOMOS نے بنایا اور بعد ازاں UNESCO نے اسکو 1983 میں اس دن کو منظور کر لیا۔اس دن کا مقصد انسانیت کی ثقافتی تنوع کے متعلق آگاہ کرنا ہے، اس ورثے کی خطرے سے دوچاریاں اور وہ اقدام جو انکے تحفظ اور بقاء کیلئے ضروری ہیں۔ 18 اپریل پوری دنیا میں منایا جاتا ہے مختلف تنظیموں کے زیر نگرانی اور بہت سے بین الاقوامی سائنسی اور ثقافتی کمیونٹیزان تقریبات کو انجام دیتی ہیں۔ 1982 ء میں جب اس دن کو شروع کیا گیا اور منظور کیا گیا ICOMOS کی اس میٹنگ میں کہا گیا کہ تاریخ دنیاکے سب سے قدیم ثقافتوں تک ملاتی ہے اورسماجی طریقوں کے بارے میں سکھا تی ہے کہ کیسے انسان کی چند مہارتوں کے ذریعے سے اس کا ارتقاء ہوا ہے۔ دنیاکے کئی علاقوں کی غاروں کے قدیم نقوش ،، کشتی اور تیراکی کے مناظر ملتے ہیں۔ گیند سے کھیلی جانے والے کھیلوں کے چند اقسام، اور دیگر کھیل جیسے کہ دوڑنا، کشتی، تیراکی، کھینا اور ایتھلیٹکس پہلے سے اچھی طرح رسوخ رکھتے تھے قدیم مصر میں، جسکا ثبوت اس تہذیب کی یادگاروں سے ملتا ہے۔ قدیم یونان نے کھیل کو پہلی بار رسمی طریقے سے منظم ہوتے دیکھا اولمپک (Olympic) کھیلوں سے جنکا سب سے پہلا لکھا ہوایہ ثبوت 776 قبل از مسیح ملتا ہے ۔
دنیا بھر میں ساری اقوام و قبیلے اپنے دونوں طرح کے ورثے کو بچانے کی کوشش میں ہیں اور ہم سے کافی زیادہ اچھی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں بد قسمتی سے ہم اس میدان میں بھی کافی پیچھے ہیں۔ہمیں تو ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا نظریہ حیات ،رہن سہن کے طریقے ہمارا ادب ،ہماری روایات ، فن تعمیر ، سوچ کے انداز ،ہمارا لباس ،میل جول ،طور طریقے ہماری ثقافت ہے اوریہ ہماری پہچان ہوتی ہے انکا تحفظ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔دنیا کے تمام مہذب معاشرے اپنے آباؤ اجداد کے ورثہ کو عزیز رکھتے ہیں۔
تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور منتقلی کیلئے تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب اور تدریسی طریقوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔تاکہ طلباء میں وہ خیالات اور اعتقادات منتقل ہو ں جو قوم چاہتی ہے ۔انکے ذہنوں میں وہ اقدار واضح کر دی جائے ۔جن کو معاشرہ اپنی ثقافتی ورثہ خیال کرتا ہے ۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو ثقافت زوال پذیر ہو جائے گی ۔ایسا ہوجانے پر اس معاشرے کی پہچان ،تشخص اور اہمیت ختم ہو جائے گی ۔آج کے دور میں ثقافتی ورثہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ اگر ثقافتی ورثہ کی منتقلی کے لئے اسی طرح کے تعلیمی و ثقافتی ادارے قائم نہ کئے جائیں۔تو ممکن ہے کہ تمام ترقی رک جائے اس نتیجے میں انسان پھر اپنی تمدنی تاریخ کے ابتدائی دور میں چلا جاتا ہے ۔ تاریخ کے ساتھ تعلیم کا بہت اہم کردار ہے کہ نہ صرف ورثہ کا تحفظ بلکہ اسے اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرے ۔آج کے دور میں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے ہے کہ تعلیم اسلامی نقطہ نظر سے موجودہ تہذہب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لے ۔اور اسکی تعمیر نو کا فریضہانجام دے ۔ثقافت کی اصل تشکیل نو یہی ہے ۔ 18 اپریل کو دنیا بھر میں عالمی سطح پر ورثے کے تحفظ اور آگاہی کے لئے خاص دن منایا جاتا ہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں اس دن سے کوئی واقف بھی نہیں ہے ۔چند سال پہلے ایک ادارے لاہور شناسی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پاکستان میں پہلی مرتبہ یوم تحفظ و آگاہی ورثہ کا دن منایا گیا تھا جس میں تمام حاضرین کو ورثے کی اہمیت اور آگاہی کے بارے میں بتایا گیا امسال بھی یہی پروگرام دہرایا جائے گا ۔ عالمی یوم تحفظ و آگاہی ورثہ کے موقع پر ہم مندرجہ ذیل اقدامات کر کے اس دن کو اہم بنایا جا سکتا ہے ۔
ورثاتی جگہوں کا دورہ کریں، جیسے کہ یادگاریں، تاریخی عمارات اور میوزیم و غیرہ
کسی ورثاتی جگہ پر رضا کارانہ طور پر کام کریں۔اس کی صفائی کا بندوبست کریں۔
اپنے علاقائی کھیل کی تقاریب جا کر دیکھیں اور کھیلیں۔
ورثہ کے بارے میں آرٹیکلز لکھیں، بانٹیں یا پھر پڑھیں۔
اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ورثہ کی اہمیت کے متعلق بات کریں 
اگر ممکن ہو تو یادگاروں کی بحالی کے کام کا جائزہ لیں۔معلومات جمع کر کے اپنے طور پر اس کے نوٹس تیار کر لیں۔
اخباروں میں آرٹیکلز اور میگزین کے ساتھ ساتھ ٹیلیوز ن اور ریڈیو پر نشریات کا انتظام کریں۔
شہروں کی شاہراہوں پر بینر لٹکانا یا ایسی جگہوں پر جہاں رش ہوتا ہے جن پر دن کی آگاہی ہو اور ثقافتی ورثہ کی بحالی کا ذکر ہو۔
قومی اور بیرونی ایکسپرٹس اور شہرت یافتہ لوگوں کو لیکچرز ، کانفرنسز اور انٹرویوز کیلئے دعوت دینا ۔
ثقافتی اداروں، سٹی ہالز اور دیگر عوامی جگہوں میں جا کر ورثے کے بارے میں گفتگو کا انعقاد کرنا۔ 
پرانی و نایاب تصاویر و پینٹنگز کی نمائش منعقد کرنا ۔
ان اداروں یا لوگوں کے لئے انعامات کی تقسیم ممکن بنانا جنہوں نے ورثے کے تحفظ کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہو۔
اُن لوگوں کے لئے اعزازی سرٹیفیکٹ یا ایوارڈز کا اجراء کرنا۔ جنہوں نے ثقافتی ورثہ کے فروغ کیلئے بہترین مضمون یا تصنیف لکھی ہو ۔
حال ہی میں بحال ہوئی یادگار کے افتتاح میں شامل ہونا۔
اسکول کے بچوں اور جوانوں میں خاص آگاہی کی سرگرمیاں منعقد کرنا۔
تحفظ و آگاہی ورثہ کے فروغ کے لئے چند تنظیموں کے درمیان، انکے تعاون کے ساتھ اسپیکرز کا تبادلہ، میٹنگ اور سیمینار کا انعقاد یا پھر مشترکہ اشاعات کی ترمیم۔

No comments:

Post a Comment