پنجاب کا روایتی و موسمی مشروبکانجی
تحریر : سید فیضان عباس
ٹھنڈی ٹھار کانجی اے
ہاضمے دار کانجی اے
یہ آوازیں عموما گلی محلوں میں جنوری کے خاتمے کے بعد آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کانجی فروش جوکہ ریڑھی پر سُرخ رنگ کے مٹکے سجائے اور ساتھ کچھ لوازمات لئے گلی گلی میں گھوم پھر کر ریڑھی پر صدائیں دیتا نظر آتا ہے ۔ کانجی دراصل کالی گاجروں کا شربت ہوتا ہے ۔ یہ خاص موسم بہار کی سوغات ہے جو کہ صرف دو سے اڑھائی ماہ تک ہی فروخت ہوتی ہے ۔ یہ کالی گاجریں جو کہ خاص موسم ہی اگائی جاتی ہیں۔اور منڈی میں مخصوص وقت میں ہی دستیاب رہتی ہیں۔ دھوپ کے تیز ہونے اور موسم گرما کے آتے ہیں کالی گاجروں کی فصل سوکھ جاتی ہے اور اس کا ذائقہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ لہذا ان کا استعمال صرف بہار کے موسم میں ہوتا ہے ۔ کالی گاجروں کا یہ شربت موسم بہار کی سوغات ہے سب سے دلچسپ بات یہ کہ جہاں باقی شربت میٹھے ہوتے ہیں وہاں یہ شربت نمکین بعض اقات ہلکا سا ترش ہوتا ہے ۔ جو کہ گہرے سُرخ رنگ کا ہوتا ہے ۔
یہ شربت ہاضمے دار ہوتا ہے ۔ یہ قوت ہاضمہ کے لیے بہت مفید ہے ۔معدے کی گرمی کو کم کرتا ہے ۔ بد ہضمی کا مکمل علاج کرتا ہے ۔ جگر کو متحرک کرتا ہے خوب بھوک لگاتا ہے اور جسم میں تازہ خون بناتا ہے ۔کانجی یا گاجر کانجی سردیوں میں بنایا جانے والا ایک روایتی پنجابی مشروب ہے۔ کانجی انتہائی مزیدار ترش مشروب ہے۔ باقی شربتوں کی طرح یہ شربت کسی سنیاسی یا پنساری کی دوکان سے سارا سال نہیں ملتا بلکہ یہ صرف مخصوص لوگ بناتے ہیں جو اس کو بنانا جانتے ہیں۔ اس کو بازار میں پیتا دیکھ کر بہت سے لوگ حیرانی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا چیز پی جا رہی ہے جس کے ساتھ لمبے لمبے قتلے کھانے کو دئیے جاتے ہیں جو کہ کالی گاجریں ہوتی ہیں۔انار پھلی اور چکندر جیسے پھل اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس شربت کے تیار کئے جانے کا انداز بھی عجیب ہے کہ بازار سے کالی گاجروں کی خریداری پہلا مرحلہ ہوتا ہے جس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ گاجریں تازہ ہونی چاہئے ورنہ وہ ذائقہ نہ بن سکے گا ۔
پھر گاجروں کا دھو کر چھیل لیا جاتا ہے اور باریک باریک قتلوں کی صورت میں کاٹ کر مٹی کے بنے گھڑوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور ان گھڑوں کو پانی سے بھر دیا جاتا ہے ۔اور پانی سے بھرے گھڑوں یا مرتبانوں میں گاجروں کو ڈالنے کے ساتھ رائی بھی ڈال دی جاتی ہے ۔ اس طرح یہ گاجریں دو دن تک پانی میں گلتی رہتی ہیں۔ تیسرے دن ان کو اچھی طرح ہلانے کے ساتھ نمک ملا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح پانچویں
روز میں یہ شربت تیار ہو جاتا ہے گاجروں کا سارا رنگ پانی میں آجاتا ہے اس طرح یہ گہرے سُرخ رنگ میں بدل جاتا ہے ۔ پھر یہ کانجی تیار ہو کر مٹکوں میں بھر کر بازار میں بیچی جاتی ہے ۔کچھ گڑوں میں کانجی کا پانی بھرا ہوتا ہے جبکہ قتلوں کی صورت میں گاجریں ایک ایک الگ مٹکے میں ہوتی ہے ۔ موقع کی مناسبت سے ایک گلاس کے ساتھ کچھ قتلے بھی ساتھ کھانے کو دئے جاتے ہیں۔ جس پر مخصوص قسم کا نمک چھڑک کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس نمک میں کالا نمک ، اجوائن وغیرہ شامل ہوتی ہے ۔ پہلے کسی زمانے میں کانجی کوئی قابل قدر چیز نہ تھی جبکہ اب اس کی افادیت سب پر عیاں ہوتی جا رہی ہے ۔ اب بیس روپے میں گلاس ملتا ہے ۔ اس کی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ محدود سطح پر بنائی جاتی ہے ۔اور اس کی گاجریں بھی محدود اور صرف قلیل مدت میں ہی دستیاب ہوتی ہے ۔ اگر آپ کانجی گھر پر تیار کرنا چاہتے ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مندرجہ ذیل طریقے کے مطابق آپ کامیاب طریقے سے اس خاص مشروب سے مستفید ہو سکتے ہیں۔اس کا طریقہ درج ذیل ہے ۔
کالی گاجریں ۔ تین کیلو
رائی ۔ چار کھانے کے چمچہ
سرخ پسی مرچ ۔ دو کھانے کے چمچہ
کالا نمک ۔ ایک چھوٹا چمچہ
سفید نمک ۔ حسب ذائقہ
بنانے کی ترکیب
گاجروں کو چھیل کر لمبے رخ میں چار چار حصوں میں کاٹ لیں۔ رائی کو باریک پیس کر سرخ پسی مرچ، کالا نمک اور سفید نمک بھی اس میں ملا لیں۔ مٹی کے گھڑے یا شیشے کے مرطبان میں چار لیٹر ڈال کر ان تمام چیزوں کو ڈال کر اچھی طرح ہلائیں۔ مرطبان کا ڈھکنا بند کر دیں۔ دن دو بار مٹکوں کو ہلاتے رہیں تاکہ گاجریں پانی میں ڈوبی رہیں چار دن بعد کانجی تیار ملے گی ۔ مزید حسب ذائقہ نمک شامل کر کے کٹی ہو ئیں گاجروں کے ساتھ پیش کریں ۔کھائیں بھی اور پئیں بھی ۔
No comments:
Post a Comment