Monday, April 16, 2018

18 اپریل عالمی یوم تحفظ و آگاہیِ ورثہ


  عالمی یوم تحفظ و آگاہیِ ورثہ   


ورلڈ ہیر ٹیج ڈے کے حوالے سے خاص تحریر 
تحریر: سید فیضان عباس نقوی
ہر معاشرہ اپنی روایات ،تہذیب و تمدن ،خصوصیات ،باقیات اور ثقافت رکھتا ہے ۔جوکہ دوسروں سے منفرد ہوتی ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ اسکی یہ ثقا فت اور ورثہ آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے اور وہ انہیں اپنا لیں ۔اس طرح سے تہذیبی و ثقافتی ورثہ محفوظ اور زندہ رہ سکتا ہے ۔کسی بھی قوم ،معاشرے یا ملک کی تہذیب و ثقافت کی ترجمان تاریخی اہمیت کے حامل عمارات ،آثار و باقیات ہوتے ہیں۔جس سے منسلک تاریخ اسکی بناوٹ ،طرز تعمیر اس معاشرے کی خصوصیات کی عکاس ہوتی ہیں۔کوئی بھی معاشرہ اپنے تہذیب ثقافت کے تحفظ اور تسلسل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔یہ فریضہ تاریخ انجام دیتی ہے ۔تاریخ کے ذریعے معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے آئندہ نسلوں میں منتقل کرسکتا ہے ۔تاریخ نے تہذیب و ثقافت کی تعمیر اور نشوونما میں بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔اسکے بعد تاریخ دانوں ،مورخوں ،محققوں نے اپنے عمل سے اسکو زندہ رکھا ہوا ہے ۔آج کے دور میں یہ ذ مہ داری تعلیمی اداروں نے بھی لی ہوئی ہے ۔جہاں تاریخ بطور مظمون پڑھائی جاتی ہے ۔جس 
سے کافی حد تک تہذیب و ثقافت و روایات اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہیں۔
تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی ترقی اور تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اور تحقیقی عمل سے افراد میں تجسس اور تنقیدی جذبات کو جلا دی جائے ۔تجسس اور کھوج کو ابھارا جائے ۔اس طرح کسی بھی زندگی کے شعبہ کو دیکھیں کہ ہر کسی فرد نے کسی نہ کسی طریقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے ۔اپنے نظریات قائم کئے اُن پر کام کیا جس سے اس میدان کیلئے ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔تاریخ نویسی ایک ایسا معاشرتی عمل ہے جوکہ معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرتا ہے ۔حالانکہ معاشرہ ہی تاریخ کا خالق ہوتا ہے ۔مگر معاشرہ اس تاریخ کے زریعے ہی اپنے تہذیبی و ثقافتی کارناموں کو محفوظ کر کے انہیں اگلی نسل تک پہنچاتا ہے ۔بلکہ سابقہ تاریخی حالات و واقعات سے عبرت حاصل کر کے آنے والے وقت میں معاشرے کی اصلاح و ترقی کیلئے کام کی ترغیب دیتا ہے ۔ہر قوم اور معاشرہ چاہتا ہے کہ اسکی اقدار ،تصوارات ، خیالات ،آثار و باقیات کو تحفظ حاصل ہو ۔اور سب لوگ انکے بارے میں جانیں۔اسکی خاطر وہ مختلف اقدام اٹھاتا ہے ۔جس میں تاریخ نویسی ،تصاویر سازی ،مجسمہ سازی ،لوک کہانیاں شامل ہیں۔معاشرت اور اسکی روایات زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔طور طریقے بدل جاتے ہیں۔معاشرے کی تہذیبی و تاریخی ورثہ کی تشکیل نو ہوتی رہتی ہے ۔اگر معاشرہ کے اس ورثے کی اصلاح ،تبدیلی ،اضافہ اور تشکیل نو نہ ہو تو معاشرہ ایسا ہوتا جیسا کہ ہزاروں سال پہلے ہوتا تھا ۔پہاڑوں میں رہتا تھا ۔پتھر رگڑ کر آگ جلاتا تھا ۔جاہلیت کا زمانہ تھا ۔پتھروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتا تھا ۔تعلیم معاشرے کی تشکیل نو کرتی ہے ۔جسکے باعث معاشرہ زمانے اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو تبدیل کرتے ہوئے اپنی تعمیر و ترقی کرتا ہے ۔
معاشرتی ورثہ کی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جوکہ آنے والے وقتوں کیلئے درست یا فائدہ مند نہیں ہوتی ۔وقت گزرنے کے بعد انکی قیمت کم ہو جاتی ہے ۔یہاں تاریخ کا فرض بنتا ہے وہ ایسی غلط اور نا کارہ اقدار اور فرسودہ اور غلظ سوچ اور رسومات پر مبنی روایات کو ختم کر دے اور مفید اور معاشرے کے لیے سود مند روایات کو فروغ دے۔تاریخ کی ابتداء حد درجہ سبق آموز اور دلفریب ہے ۔انسان ابھی نیم وحشی دور اور قبائلی تمدن سے آگے نہیں بڑھا تھا کہ اسے اپنے آباؤ اجداد اور نامور لوگوں کے کارناموں کو محفوظ کرنے کا خیال آیا ۔یہ قبیلوں کے سردار ہوں گے جوکہ جسمانی اور ذہنی شعور کے اعتبار سے لوگوں میں ممتاز ہوئے۔انہوں نے سماج اور قوم کیلئے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہوگا ۔بہر حال آنے والوں نے انکی یاد کو محفوظ کرنا اپنا فریضہ جانا اور انکی زندگی کے واقعات و حالات کو قلم بند کیا ۔یہ عمل تاریخ نویسی اور تاریخ نگاری کہلاتا ہے ۔اس عمل نے صدیوں پرانے معاشروں کی تہذیب و ثقافت کو آنے والی نسلوں کو متعارف کیا اور انہیں اپنے اجداد کے حالات و واقعات سے روشناس کروایا ۔ورثہ وراثت سے نکلا ہے ۔ وراثت سے مراد ہر وہ چیز جو ہم اپنے آبائے کرام سے میراث پاتے ہیں حاصل ہونے والا ترکہ ہمارا ورثہ کہلاتا ہے ۔اورمعاشرتی ورثے کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔
ایک وہ جو رسم و رواج طور طریقے ، آداب و روایات ، لباس ، میل جول وغیرہ شامل ہیں۔
دوسرا وہ جو تاریخی عمارات ، تاریخی آثار و باقیات جو گذرے وقتوں کی تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں جن کو بنانے والوں کے جاہ جلال کا انداز ہوتا 
ہے ۔
عالمی تحفظ و آگاہی ورثے کا دن (یادگاروں اور جگہوں کا بین الاقوامی دن) 1982 میں ICOMOS نے بنایا اور بعد ازاں UNESCO نے اسکو 1983 میں اس دن کو منظور کر لیا۔اس دن کا مقصد انسانیت کی ثقافتی تنوع کے متعلق آگاہ کرنا ہے، اس ورثے کی خطرے سے دوچاریاں اور وہ اقدام جو انکے تحفظ اور بقاء کیلئے ضروری ہیں۔ 18 اپریل پوری دنیا میں منایا جاتا ہے مختلف تنظیموں کے زیر نگرانی اور بہت سے بین الاقوامی سائنسی اور ثقافتی کمیونٹیزان تقریبات کو انجام دیتی ہیں۔ 1982 ء میں جب اس دن کو شروع کیا گیا اور منظور کیا گیا ICOMOS کی اس میٹنگ میں کہا گیا کہ تاریخ دنیاکے سب سے قدیم ثقافتوں تک ملاتی ہے اورسماجی طریقوں کے بارے میں سکھا تی ہے کہ کیسے انسان کی چند مہارتوں کے ذریعے سے اس کا ارتقاء ہوا ہے۔ دنیاکے کئی علاقوں کی غاروں کے قدیم نقوش ،، کشتی اور تیراکی کے مناظر ملتے ہیں۔ گیند سے کھیلی جانے والے کھیلوں کے چند اقسام، اور دیگر کھیل جیسے کہ دوڑنا، کشتی، تیراکی، کھینا اور ایتھلیٹکس پہلے سے اچھی طرح رسوخ رکھتے تھے قدیم مصر میں، جسکا ثبوت اس تہذیب کی یادگاروں سے ملتا ہے۔ قدیم یونان نے کھیل کو پہلی بار رسمی طریقے سے منظم ہوتے دیکھا اولمپک (Olympic) کھیلوں سے جنکا سب سے پہلا لکھا ہوایہ ثبوت 776 قبل از مسیح ملتا ہے ۔
دنیا بھر میں ساری اقوام و قبیلے اپنے دونوں طرح کے ورثے کو بچانے کی کوشش میں ہیں اور ہم سے کافی زیادہ اچھی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں بد قسمتی سے ہم اس میدان میں بھی کافی پیچھے ہیں۔ہمیں تو ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا نظریہ حیات ،رہن سہن کے طریقے ہمارا ادب ،ہماری روایات ، فن تعمیر ، سوچ کے انداز ،ہمارا لباس ،میل جول ،طور طریقے ہماری ثقافت ہے اوریہ ہماری پہچان ہوتی ہے انکا تحفظ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔دنیا کے تمام مہذب معاشرے اپنے آباؤ اجداد کے ورثہ کو عزیز رکھتے ہیں۔
تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور منتقلی کیلئے تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب اور تدریسی طریقوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔تاکہ طلباء میں وہ خیالات اور اعتقادات منتقل ہو ں جو قوم چاہتی ہے ۔انکے ذہنوں میں وہ اقدار واضح کر دی جائے ۔جن کو معاشرہ اپنی ثقافتی ورثہ خیال کرتا ہے ۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو ثقافت زوال پذیر ہو جائے گی ۔ایسا ہوجانے پر اس معاشرے کی پہچان ،تشخص اور اہمیت ختم ہو جائے گی ۔آج کے دور میں ثقافتی ورثہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ اگر ثقافتی ورثہ کی منتقلی کے لئے اسی طرح کے تعلیمی و ثقافتی ادارے قائم نہ کئے جائیں۔تو ممکن ہے کہ تمام ترقی رک جائے اس نتیجے میں انسان پھر اپنی تمدنی تاریخ کے ابتدائی دور میں چلا جاتا ہے ۔ تاریخ کے ساتھ تعلیم کا بہت اہم کردار ہے کہ نہ صرف ورثہ کا تحفظ بلکہ اسے اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرے ۔آج کے دور میں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے ہے کہ تعلیم اسلامی نقطہ نظر سے موجودہ تہذہب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لے ۔اور اسکی تعمیر نو کا فریضہانجام دے ۔ثقافت کی اصل تشکیل نو یہی ہے ۔ 18 اپریل کو دنیا بھر میں عالمی سطح پر ورثے کے تحفظ اور آگاہی کے لئے خاص دن منایا جاتا ہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں اس دن سے کوئی واقف بھی نہیں ہے ۔چند سال پہلے ایک ادارے لاہور شناسی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پاکستان میں پہلی مرتبہ یوم تحفظ و آگاہی ورثہ کا دن منایا گیا تھا جس میں تمام حاضرین کو ورثے کی اہمیت اور آگاہی کے بارے میں بتایا گیا امسال بھی یہی پروگرام دہرایا جائے گا ۔ عالمی یوم تحفظ و آگاہی ورثہ کے موقع پر ہم مندرجہ ذیل اقدامات کر کے اس دن کو اہم بنایا جا سکتا ہے ۔
ورثاتی جگہوں کا دورہ کریں، جیسے کہ یادگاریں، تاریخی عمارات اور میوزیم و غیرہ
کسی ورثاتی جگہ پر رضا کارانہ طور پر کام کریں۔اس کی صفائی کا بندوبست کریں۔
اپنے علاقائی کھیل کی تقاریب جا کر دیکھیں اور کھیلیں۔
ورثہ کے بارے میں آرٹیکلز لکھیں، بانٹیں یا پھر پڑھیں۔
اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ورثہ کی اہمیت کے متعلق بات کریں 
اگر ممکن ہو تو یادگاروں کی بحالی کے کام کا جائزہ لیں۔معلومات جمع کر کے اپنے طور پر اس کے نوٹس تیار کر لیں۔
اخباروں میں آرٹیکلز اور میگزین کے ساتھ ساتھ ٹیلیوز ن اور ریڈیو پر نشریات کا انتظام کریں۔
شہروں کی شاہراہوں پر بینر لٹکانا یا ایسی جگہوں پر جہاں رش ہوتا ہے جن پر دن کی آگاہی ہو اور ثقافتی ورثہ کی بحالی کا ذکر ہو۔
قومی اور بیرونی ایکسپرٹس اور شہرت یافتہ لوگوں کو لیکچرز ، کانفرنسز اور انٹرویوز کیلئے دعوت دینا ۔
ثقافتی اداروں، سٹی ہالز اور دیگر عوامی جگہوں میں جا کر ورثے کے بارے میں گفتگو کا انعقاد کرنا۔ 
پرانی و نایاب تصاویر و پینٹنگز کی نمائش منعقد کرنا ۔
ان اداروں یا لوگوں کے لئے انعامات کی تقسیم ممکن بنانا جنہوں نے ورثے کے تحفظ کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہو۔
اُن لوگوں کے لئے اعزازی سرٹیفیکٹ یا ایوارڈز کا اجراء کرنا۔ جنہوں نے ثقافتی ورثہ کے فروغ کیلئے بہترین مضمون یا تصنیف لکھی ہو ۔
حال ہی میں بحال ہوئی یادگار کے افتتاح میں شامل ہونا۔
اسکول کے بچوں اور جوانوں میں خاص آگاہی کی سرگرمیاں منعقد کرنا۔
تحفظ و آگاہی ورثہ کے فروغ کے لئے چند تنظیموں کے درمیان، انکے تعاون کے ساتھ اسپیکرز کا تبادلہ، میٹنگ اور سیمینار کا انعقاد یا پھر مشترکہ اشاعات کی ترمیم۔

Saturday, February 10, 2018

کانجی


پنجاب کا روایتی و موسمی مشروبکانجی 


         تحریر : سید فیضان عباس 
مصنف سید فیضان عباس نہر کنارے کانجی فروش سے کانجی پیتے ہوئے ۔ تصویر  بشکریہ پروفیسر شعیب رضا 


ٹھنڈی ٹھار کانجی اے 
ہاضمے دار کانجی اے 
یہ آوازیں عموما گلی محلوں میں جنوری کے خاتمے کے بعد آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کانجی فروش جوکہ ریڑھی پر سُرخ رنگ کے مٹکے سجائے اور ساتھ کچھ لوازمات لئے گلی گلی میں گھوم پھر کر ریڑھی پر صدائیں دیتا نظر آتا ہے ۔ کانجی دراصل کالی گاجروں کا شربت ہوتا ہے ۔ یہ خاص موسم بہار کی سوغات ہے جو کہ صرف دو سے اڑھائی ماہ تک ہی فروخت ہوتی ہے ۔ یہ کالی گاجریں جو کہ خاص موسم ہی اگائی جاتی ہیں۔اور منڈی میں مخصوص وقت میں ہی دستیاب رہتی ہیں۔ دھوپ کے تیز ہونے اور موسم گرما کے آتے ہیں کالی گاجروں کی فصل سوکھ جاتی ہے اور اس کا ذائقہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ لہذا ان کا استعمال صرف بہار کے موسم میں ہوتا ہے ۔ کالی گاجروں کا یہ شربت موسم بہار کی سوغات ہے سب سے دلچسپ بات یہ کہ جہاں باقی شربت میٹھے ہوتے ہیں وہاں یہ شربت نمکین بعض اقات ہلکا سا ترش ہوتا ہے ۔ جو کہ گہرے سُرخ رنگ کا ہوتا ہے ۔
یہ شربت ہاضمے دار ہوتا ہے ۔ یہ قوت ہاضمہ کے لیے بہت مفید ہے ۔معدے کی گرمی کو کم کرتا ہے ۔ بد ہضمی کا مکمل علاج کرتا ہے ۔ جگر کو متحرک کرتا ہے خوب بھوک لگاتا ہے اور جسم میں تازہ خون بناتا ہے ۔کانجی یا گاجر کانجی سردیوں میں بنایا جانے والا ایک روایتی پنجابی مشروب ہے۔ کانجی انتہائی مزیدار ترش مشروب ہے۔ باقی شربتوں کی طرح یہ شربت کسی سنیاسی یا پنساری کی دوکان سے سارا سال نہیں ملتا بلکہ یہ صرف مخصوص لوگ بناتے ہیں جو اس کو بنانا جانتے ہیں۔ اس کو بازار میں پیتا دیکھ کر بہت سے لوگ حیرانی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا چیز پی جا رہی ہے جس کے ساتھ لمبے لمبے قتلے کھانے کو دئیے جاتے ہیں جو کہ کالی گاجریں ہوتی ہیں۔انار پھلی اور چکندر جیسے پھل اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس شربت کے تیار کئے جانے کا انداز بھی عجیب ہے کہ بازار سے کالی گاجروں کی خریداری پہلا مرحلہ ہوتا ہے جس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ گاجریں تازہ ہونی چاہئے ورنہ وہ ذائقہ نہ بن سکے گا ۔ 
پھر گاجروں کا دھو کر چھیل لیا جاتا ہے اور باریک باریک قتلوں کی صورت میں کاٹ کر مٹی کے بنے گھڑوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور ان گھڑوں کو پانی سے بھر دیا جاتا ہے ۔اور پانی سے بھرے گھڑوں یا مرتبانوں میں گاجروں کو ڈالنے کے ساتھ رائی بھی ڈال دی جاتی ہے ۔ اس طرح یہ گاجریں دو دن تک پانی میں گلتی رہتی ہیں۔ تیسرے دن ان کو اچھی طرح ہلانے کے ساتھ نمک ملا دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح پانچویں
روز میں یہ شربت تیار ہو جاتا ہے گاجروں کا سارا رنگ پانی میں آجاتا ہے اس طرح یہ گہرے سُرخ رنگ میں بدل جاتا ہے ۔ پھر یہ کانجی تیار ہو کر مٹکوں میں بھر کر بازار میں بیچی جاتی ہے ۔کچھ گڑوں میں کانجی کا پانی بھرا ہوتا ہے جبکہ قتلوں کی صورت میں گاجریں ایک ایک الگ مٹکے میں ہوتی ہے ۔ موقع کی مناسبت سے ایک گلاس کے ساتھ کچھ قتلے بھی ساتھ کھانے کو دئے جاتے ہیں۔ جس پر مخصوص قسم کا نمک چھڑک کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس نمک میں کالا نمک ، اجوائن وغیرہ شامل ہوتی ہے ۔ پہلے کسی زمانے میں کانجی کوئی قابل قدر چیز نہ تھی جبکہ اب اس کی افادیت سب پر عیاں ہوتی جا رہی ہے ۔ اب بیس روپے میں گلاس ملتا ہے ۔ اس کی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ محدود سطح پر بنائی جاتی ہے ۔اور اس کی گاجریں بھی محدود اور صرف قلیل مدت میں ہی دستیاب ہوتی ہے ۔ اگر آپ کانجی گھر پر تیار کرنا چاہتے ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مندرجہ ذیل طریقے کے مطابق آپ کامیاب طریقے سے اس خاص مشروب سے مستفید ہو سکتے ہیں۔اس کا طریقہ درج ذیل ہے ۔ 
کالی گاجریں ۔ تین کیلو
رائی ۔ چار کھانے کے چمچہ
سرخ پسی مرچ ۔ دو کھانے کے چمچہ
کالا نمک ۔ ایک چھوٹا چمچہ
سفید نمک ۔ حسب ذائقہ
بنانے کی ترکیب
گاجروں کو چھیل کر لمبے رخ میں چار چار حصوں میں کاٹ لیں۔ رائی کو باریک پیس کر سرخ پسی مرچ، کالا نمک اور سفید نمک بھی اس میں ملا لیں۔ مٹی کے گھڑے یا شیشے کے مرطبان میں چار لیٹر ڈال کر ان تمام چیزوں کو ڈال کر اچھی طرح ہلائیں۔ مرطبان کا ڈھکنا بند کر دیں۔ دن دو بار مٹکوں کو ہلاتے رہیں تاکہ گاجریں پانی میں ڈوبی رہیں چار دن بعد کانجی تیار ملے گی ۔ مزید حسب ذائقہ نمک شامل کر کے کٹی ہو ئیں گاجروں کے ساتھ پیش کریں ۔کھائیں بھی اور پئیں بھی ۔ 


Monday, January 15, 2018

British Infantory Graveyard Dharam Pura Lahore


  برٹش انفنٹری گورا قبرستان دھرم پورہ







تحریر و تحقیق؛۔ سید فیضان عباس نقوی

بر صغیر پاک و ہند میں عیسائی پہلی بار سولہویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اکبر کے دور میں وارد ہوئے ہیں ۔لاہور میں اکبر نے انہیں چرچ بنانے کی جگہ فراہم کی ۔اس چرچ کی افتتاحی تقریب میں خصوصی طور شہزادہ جہانگیر شریک ہوا تھا ۔اسکے بعد عیسائی مشینریوں نے اس سر زمین پر مسحیت کا پرچار شروع کر دیا ۔بعد ازاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت پورے بر صغیر میں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لی ۔مغل اور سکھ حکومت کے کمزور ہوتے ہی اس کمپنی نے خوب فائدہ اٹھایا اور ریشہ دوانیاں اور راجوں سے ساز باز کر کے اس سر زمین پر قابض ہو گئی ۔لاہور میں اٹھارویں صدی میں بظاہر سکھ حکومت تھی لیکن کمپنی کے تاجر اور ملازمین کسی نہ کسی طرح حکومت کے وفادار بھی تھے ۔لہذا لاہور میں انہوں نے اپنی اموات کے لئے گورا قبرستان بھی تعمیر کئے ۔جہاں شاہی فوج کے ملازمین اور جنگوں میں مارے جانے والے فوجی شامل تھے ۔لاہور میں 1848 ء میں سکھ حکومت کو ختم کر کے آخری سکھ شہزادے دلیپ سنگھ کو معزول کر کے لندن بھیج دیا گیا اور لاہور کمپنی حکومت میں آگیا ۔لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد ملکہ بر طانیہ نے حکومت خود اپنے ہاتھوں میں لی اور پورے برصغیر سے کمپنی راج کا خاتمہ کر دیاگیا ۔اسکے بعد برطانوی حکومت رائج ہو گئی ۔اسکے بعد کھلم کھلا مسحیت کا پرچار کیا گیا تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ۔کرسچین ولیم فورمین نے مذہبی تعلیم کو فروغ دیا۔لاہور میں اس وقت دس کے قریب قدیم گورا قبرستان ہیں جہاں ابتدائی بر طانوی عہد کے بڑے بڑے نامور لوگ مدفون ہیں۔ابھی صرف گورا قبرستان دھرم پورہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے باقی قبرستانوں پر آئیندہ فیچر شائع کئے جائیں گے ۔
لاہور ریلوے اسٹیشن سے دھرم پورہ نہر کی پل کی جانب آئیں تو یہاں سے آگے یہ سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ۔بائیں جانب تو دھرم پورہ سے ہو کر صدر کی جانب جاتی ہے۔جبکہ دائیں جانب والی دربار میاں میر کی جانب چلی جاتی ہے جسکو انفنٹری روڈ کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ سڑک شہر کو لاہور چھاؤنی سے ملاتی ہے۔چھاؤنی میں فوج کی آمد ورفت کا راستہ ہونے کی وجہ سے اسکا نام انفنٹری روڈ ہے۔یہاں سے تھوڑا سا مزید آگے کی جانب جائیں تو میاں میر ڈرینج ( نالہ) آتا ہے ۔اس نالہ کے ساتھ بائیں جانب فوجی ورکشاپ اورڈپو ہے۔اس ورکشاپ کے عقب میں دیوار کے ساتھ ساتھ گورا قبرستان واقع ہے۔جس کا اصل نام British Infentery Graveyard ہے۔کئی کنالوں پر محیط یہ گوارا قبرستان لاہور کے دیگر گورا قبرستانوں کی طرح قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کا بھی حامل ہے۔یہ اٹھارویں صدی کا گورا قبرستان ہے۔جو کہ چرچ آف پاکستان کے زیر نگرانی ہے۔اسکے گرد اور سامنے کی جانب دھرم پورہ کی آبادی ہے۔
اس گوارا قبرستان کی بنیاد 1815 ء میں رکھی گئی۔یہ صرف برطانوی فوج کے لئے مختص کیا گیا تھا ۔جہاں مختلف معرکوں اور لڑائیوں میں کام آنے والے فوجیوں کو دفن کیا جاتا تھا۔
میجر اے ایف بوؤگے پہلے شخص ہیں جنہیں یہاں دفن کیا گیا ۔انکی قبر کا نشان گم ہو چکا ہے۔ البتہ 1830 کی انفرادی قبروں کا کتبہ ابھی موجود ہے۔اسکے بعد بہت سے اعلی فوجی افسران کی قبریں یہاں موجود ہیں ۔مگر ان سب کے نشانات ختم ہو چکے ہیں ۔چند ایک نشانات دیکھنے کو ملتے 
ہیں۔
اس 
قبرستان کی چار دیواری دیگر تاریخی مقامات کی طرح چھوٹی اینٹوں اور چونے گارے سے تعمیر کی گئی تھی۔جوکہ اب موجود نہیں ہے۔البتہ بعض پرانی قبروں کے سرہانے پر چھوٹی اینٹوں سے بنے نشانات دیکھنے کو بہ آسانی ملتے ہیں ۔گیٹ سے اندر جا کر دائیں جانب ایک چھوٹی اینٹوں سے بنی شکستہ عمارت کے کھنڈر نظر آتے ہیں ۔جس کے دائیں جانب دیوار پر ایک کراس نصب ہے جس پر 1815 کی تاریخ درج ہے۔یہ دراصل اس قبرستان کا داخلی درازہ تھا ۔اس دروازہ کی ڈیوڑھی تقریبا مغل مقبروں کی مانند بنائی تھی۔جسکو شہزادی نادرہ بیگم کے مقبرے کی ماندہ عمارات سے حاصل ہونے والی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔جسے سلطان ٹھیکے دار نے مقبرے کی دیگر عمارت کو گرا کر ان سے نکال لی تھیں ۔اس ڈیوڑھی کے دونوں جانب چھوٹی کمرہ نما حجرے تھے ۔جس میں گورگن اور چوکیدار کا قیام ہوتا تھا ۔جبکہ دوسرا انتظامیہ کا دفتر تھا ۔البتہ اسکے کھنڈرات اب بھی باقی ہیں ۔
اس قبرستان میں صرف چار پانچ قبروں کے گرد آہنی حفاظتی جنگلے جوکہ پرانے زمانے کے ہیں ان پر بنے کراس کے نشان سے لگتا ہے جن کو کم از کم 150 سال گزر چکے ہیں۔ان حفاظتی جنگلوں کی بدولت یہ قبریں زمانے کی خرد برد سے محفوظ رہ گئیں۔اس قبرستان میں صرف نیم کے درخت ہیں ۔اس کا رقبہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے۔کچے پکے راستے اور پگڈنڈیاں بنی ہیں ۔اسکے دائیں جانب قبرستان کے انچارج کی رہائش ہے۔اسکے قریب ہی ایک پورے احاطے میں برطانوی فوجی جوانوں کی ایک ہی طرز پر تعمیر کردہ قبریں ہیں ۔جن پر انکے نام اور نمبردرج ہیں ۔جن میں سے زیادہ تر کتبے ٹوٹ چکے ہیں ۔ان میں سے ایک قبر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ قبر ایک باکسر چیمپئن کی ہے جس پر لوہے کی پلیٹ ہوتی تھی جسکو نشیؤں نے اتار کر بیچ دیا ۔جس کی وجہ سے وہ قبر بھی اپنا نشان کھو بیٹھی۔
قبرستان کے مین گیٹ سے سامنے والی سائیڈ پر دیوار کے قریب ایک قبر ہے جوکہ گم نام ہو چکی ہے۔اسکا کتبہ بھی گر چکا ہے۔جبکہ یہ چھوٹٰی اینٹ سے بنی قبر زمین کی سطح سے ایک با لشت اونچی ہے۔جسکے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ یہ قبر ٹیپو سلطان کو شہید کرنے والے فوجی افسر جنرل 
ہیئرس کی ہے۔
قبرستان کے بائیں جانب والے ابتدائی حصے میں انگریز فوجی افسران کی آرمگاہیں ہیں۔جو مختلف معرکوں اور جنگوں میں مارے گئے یہ چھوٹی اینٹوں

 سے بنی قبریں زمین سے دو،تین فٹ بلند خستہ حال ہیں۔کچھ گر چکی ہیں ۔کچھ گرنے کی منتظر ہیں ۔ان برجی نما قبروں کے کتبے غائب ہو چکے ہیں ۔جو چند ایک موجود ہیں ان کی لکھائی مدہم ہو چکی ہے۔ اکثر قبریں زمین میں دھنس گئی ہیں جنکا نام پڑھنا نا ممکن ہے۔یہاں کچھ قبریں لمبی بنائی گئی ہیں مینار کی مانند مگر وہ زمین پر دراز ہیں ۔جنکے الفاظ بھی مٹ چکے ہیں ۔
یہ قبرستان اسی طرح برطانوی حکومت کی سر پرستی میں رہا ۔مگر1947ء میں قیا م پا کستا ن کے بعد اس قبر ستا ن کو بند کر دیا گیاکئی عر صہ بند رہنے کی وجہ سے ویرا ن اور اجڑگیا ۔بعد ازاں مسحیے عوا م کے پرُ زور مطا لبے پر کھو ل دیا گیا۔پھر یہ قبر ستا ن علا قے کے مسحیے عو ا م کے زیر استعما ل آ گیا ۔ یہ قبر ستا ن چرچ آف پا کستان کے زیرِ نگرانی ہے ۔1974 ء میں سردار ڈیوڈ مسیح جو کہ جنرل اسپتال ،گلا ب دیوی اسپتا ل میں میل نر س تھے۔سردار ڈیو ڈ مسیح نے اپنے زندگی کے آخر ی سا ل اس قبر ستان کی خدمت میں گزارے اس قبرستان کے ویران ہونے کے با عث یہا ں چھٹی کے رو زآبا دی کے نو جوانوں کی بہت بڑی تعداد اس جگہ کر کٹ کھیلنے آتی تھی جس کے با عث نئی قبر یں خر ا ب ہو جا تی تھی جبکہ پرانے کتبے بطور وکٹ استعمال ہوتے تھے ۔ قبرستان کے خادم سردار ڈیوڈ مسیح نے احترام قبرستان کی خا طر نوجوانوں کی منع کیا ۔جس پر ایک مشتعل نوجوان نے انکو پتھر دے مارا ،جوکہ انکی آنکھ پر لگا جس سے ان کی آنکھ ضائع ہو گئی ۔اور اگلے سال انکی موت واقع ہو گئی ۔انکی قبر بھی یہاں ہی ہے۔انکی وفات کے بعد انکے بیٹے سلیمان سردار مسیح اس قبرستان کی خدمت پر مامور ہوئے ۔اور اس قبرستان کی حالت کو سدھارنے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد قرار دیا۔
اس دوران کیپٹن ثناء اللہ ایم این اے نے بھی اس جگہ کی دیکھ بھال کے لئے امداد فراہم کی مین گیٹ کے دائیں جانب انکے نام کی تختی نصب ہے۔فرنٹ دیوار اور جنازگاہ کی تعمیر کیلئے مسیحٰی ایم این اے طارق سی قیصر نے تعمیر وطن پروگرام سے فنڈز لے کر کام مکمل کروایا ۔گیٹ کے 
بائیں جانب سنگ بنیاد جناز گاہ کا کتبہ نصب ہے جس پر طارق سی قیصر کا نام رقم ہے۔
اس قبرستان کی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے سلیمان مسیح نے اپنے حلقہ احباب کو جمع کیا اور اس قبرستان کے لئے عملی کام کرنے پر اکسایا ۔اس غرض سے 2002 ء میں ایک گورا قبرستان کمیٹی بنائی گئی ۔جس میں سلیمان مسیح اس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری بنے ۔انہوں نے اس قبرستان کی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کے لئے کمیٹی ممبران کو عہدے تقسیم کئے اور مختلف اخبارات میں اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا ۔اس کمیٹی کی کو ششوں کی وجہ سے جلد ہی اس قبرستان سے کر کٹ بازی اور پتنگ بازی بند کروا دی گئی ۔سلیمان مسیح کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے کچھ قبضہ گروپ یہاں قابض تھے ان سے قبرستان کی جگہ وا گزار کروا ئی ۔یہاں کی قدیمی قبریں زیادہ تر اٹھارویں صدی کی ہیں ۔جوکہ اپنے زمانے میں نہایت شاندار بنائیں گئی تھیں ۔مگر آج انکی حالت نہایت پسماندہ ہے ۔اکثر قبروں سے قیمتی پتھر چوری ہو چکا ہے ۔جن کی وجہ سے بے شمار تاریخی شخصیات کی قبریں گم نام ہو کر رہ گئی ہیں ۔البتہ کچھ پرانی قبروں پر کتبے باقی ہیں ۔ان پر لگے پتھروں کی لمبائی ، لکھائی اور خوبصورتی دیکھ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ تاریخی اور خوبصورت کتبے زمانے کے ظلم و استبداد کا شکار ہو گئے ہیں۔جنکو سامنے کے رہائشی علاقے کے لوگوں نے اپنے گٹروں پر بطور سلیب رکھا تھا ۔ جن میں سے کافی کتبے سلیمان مسیح کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں جوکہ انہوں نے آبادی کے گٹروں سے جمع کئے ہیں ۔جس میں سب سے قدیم کتبہ 1838 ہے ۔جو کہ اجتماعی قبر کا ہے۔یہ قبرستان کہنے کو چرچ آف پاکستان کے زیر نگرانی آتا ہے مگر آج تک کوئی بھی چرچ ، پادری ، سیاسی راہنما یا دیگر کوئی عیسائی تنظیم اپنے اس تاریخی ورثے کو محفوظ نہیں کر سکی ۔ہمارا یہ ورثہ بھی 
دیگر دوسری قدیم عمارات کی طرح خصوصی توجہ کا طالب ہے۔

DASS Kulcha


لاہو ر کا انوکھا اور روایتی ناشتہ 

داس کلچہ 

تحریر و تحقیق ؛۔ سید فیضان عباس

لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے جہاں دن کے ساتھ راتیں بھی جاگتیں ہیں۔خاص طور پر اندرون لاہور کی تو رونق ہی شام سے شروع ہوتی ہے ۔جہاں کھانے پینے کی دکانیں سج جاتی ہیں جو کہ رات دیر گئے صبح تک کھلی رہتی ہیں ۔کھلے دل کے لاہوری دل بھر کے کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔لیکن لاہور تو خاص طور پر ناشتوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔لاہور کے اہم ناشتوں میں بونگ پائے ، نان چنے ، نہاری ، کوزی حلیم ،سری کا سالن،مغز نلی کا سالن اور داس کلچہ شامل ہے ۔اندرون لاہور کی اس خاص ناشتے کی ڈش کے بارے میں شہر کے باہر رہنے والے لوگ توبہت ہی کم جانتے ہونگے ۔اگر ان کے سامنے یہ داس کلچہ رکھ دیا جائے تو انکی حیرانی کی حد نہیں ہوگی کہ یہ کیسی ڈش ہے ؟ اور کیسے کھانی ہے ؟
داس کلچہ اندرون لاہور میں ایک ثقافتی کھانہ ہے جو کہ زیادہ تر ناشتے میں کھایا جاتا ہے ۔ لیکن عمو ما دوپہر تک کھانے میں ملتا ہے ۔داس کلچے کے کلچے دیکھنے میں عام کلچے کی مانند ہی تندور میں تیار ہوتے ہیں ۔لیکن ان کا سائز قدرے چھوٹا ہوتا ہے اور یہ ذرا موٹے ہوتے تھے ۔یہ میدے کے خمیر سے تیار کئے جاتے ہیں۔تیار ہو جانے کے بعد یہ شوارما بریڈ کی مانند نظر آتے ہیں۔اسکے ساتھ کھانے کے لئے چٹ پٹے قسم کے چنے بنائے ہوتے ہیں جو کہ چکڑ چنے کی طرز پر تیار کئے جاتے ہیں ۔جبکہ ان چنوں کے ساتھ پکوڑوں کی طرح کی چند پکوڑیاں جسے لونچھڑے کہا جاتا ہے جس کا سائز بڑی پکوڑی جتنا ہوتاہے ۔ اسکے ساتھ انار دانہ کی چٹنی ، اچار اور ساتھ باریک باریک سلاد دیا جاتا ہے ۔جو کہ اسکی لذت دوبالا کر دیتا ہے ۔لوگوں کو کھاتا دیکھ کر منہ میں پانی آجاتا ہے ۔ممکن ہے کہ پہلی مرتبہ کھانے میں کچھ دقت ہو کیونکہ کلچہ ذرا خشک ہوتا ہے ۔اور چنے وغیرہ بھی قدرے خشک لیکن بعد ازاں آپ کو یقیناًاچھے لگیں گے۔داس کلچے کے بارے میں اندرون لاہور کے کچھ پرانے بزرگ بتاتے ہیں کہ یہ کھانہ امرتسر سے آئے ایک خاندان نے تقسیم سے پہلے شروع کیا تھا ۔کچھ عرصہ پہلے تک صرف موچی دروازہ کے علاقہ چوہٹہ مفتی باقر میں ہی بنائے جاتے تھے بعد ازاں اس خاندان کی آنے والی نسلوں میں منتقل ہو ا اور اب کاروباری سطح پر چونا منڈی چوک ،کشمیری بازار اور دیگر جگہوں پر بھی فرو خت ہونے لگا ہے ۔اور اب تو لاہور کے بڑے بازاروں رنگ محل ،ڈبی بازار ، اعظم کلاتھ مارکیٹ ،موتی بازار ،اور دیگر تجارتی جگہوں میں کھانچہ اٹھائے بھی بیچتے نظر آئیں گیں۔آپ جب بھی لاہور میں آئیں ایک بار ضرور داس کلچہ ضرور کھائیں۔اندرون لاہور میں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی کوششوں سے لوکل ٹورازم میں خاصا اضافہ ہوا ہے ۔جس کے باعث تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ ایسے روایتی کھانوں کو بھی بقا بخشنے کے لئے مناسب انتظام کیا جا رہا ہے ۔داس کلچہ بیچنے والوں کی سرپرستی اور انھیں اسکو بیچنے کے لئے مناسب مواقعے فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ لاہور کے باقی روایتی پکوانوں پر الگ سے فیچر شائع کیا جائے گا ۔