برٹش انفنٹری گورا قبرستان دھرم پورہ
تحریر و تحقیق؛۔ سید فیضان عباس نقوی
بر صغیر پاک و ہند میں عیسائی پہلی بار سولہویں صدی عیسوی میں شہنشاہ اکبر کے دور میں وارد ہوئے ہیں ۔لاہور میں اکبر نے انہیں چرچ بنانے کی جگہ فراہم کی ۔اس چرچ کی افتتاحی تقریب میں خصوصی طور شہزادہ جہانگیر شریک ہوا تھا ۔اسکے بعد عیسائی مشینریوں نے اس سر زمین پر مسحیت کا پرچار شروع کر دیا ۔بعد ازاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت پورے بر صغیر میں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لی ۔مغل اور سکھ حکومت کے کمزور ہوتے ہی اس کمپنی نے خوب فائدہ اٹھایا اور ریشہ دوانیاں اور راجوں سے ساز باز کر کے اس سر زمین پر قابض ہو گئی ۔لاہور میں اٹھارویں صدی میں بظاہر سکھ حکومت تھی لیکن کمپنی کے تاجر اور ملازمین کسی نہ کسی طرح حکومت کے وفادار بھی تھے ۔لہذا لاہور میں انہوں نے اپنی اموات کے لئے گورا قبرستان بھی تعمیر کئے ۔جہاں شاہی فوج کے ملازمین اور جنگوں میں مارے جانے والے فوجی شامل تھے ۔لاہور میں 1848 ء میں سکھ حکومت کو ختم کر کے آخری سکھ شہزادے دلیپ سنگھ کو معزول کر کے لندن بھیج دیا گیا اور لاہور کمپنی حکومت میں آگیا ۔لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد ملکہ بر طانیہ نے حکومت خود اپنے ہاتھوں میں لی اور پورے برصغیر سے کمپنی راج کا خاتمہ کر دیاگیا ۔اسکے بعد برطانوی حکومت رائج ہو گئی ۔اسکے بعد کھلم کھلا مسحیت کا پرچار کیا گیا تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ۔کرسچین ولیم فورمین نے مذہبی تعلیم کو فروغ دیا۔لاہور میں اس وقت دس کے قریب قدیم گورا قبرستان ہیں جہاں ابتدائی بر طانوی عہد کے بڑے بڑے نامور لوگ مدفون ہیں۔ابھی صرف گورا قبرستان دھرم پورہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے باقی قبرستانوں پر آئیندہ فیچر شائع کئے جائیں گے ۔
لاہور ریلوے اسٹیشن سے دھرم پورہ نہر کی پل کی جانب آئیں تو یہاں سے آگے یہ سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ۔بائیں جانب تو دھرم پورہ سے ہو کر صدر کی جانب جاتی ہے۔جبکہ دائیں جانب والی دربار میاں میر کی جانب چلی جاتی ہے جسکو انفنٹری روڈ کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ سڑک شہر کو لاہور چھاؤنی سے ملاتی ہے۔چھاؤنی میں فوج کی آمد ورفت کا راستہ ہونے کی وجہ سے اسکا نام انفنٹری روڈ ہے۔یہاں سے تھوڑا سا مزید آگے کی جانب جائیں تو میاں میر ڈرینج ( نالہ) آتا ہے ۔اس نالہ کے ساتھ بائیں جانب فوجی ورکشاپ اورڈپو ہے۔اس ورکشاپ کے عقب میں دیوار کے ساتھ ساتھ گورا قبرستان واقع ہے۔جس کا اصل نام British Infentery Graveyard ہے۔کئی کنالوں پر محیط یہ گوارا قبرستان لاہور کے دیگر گورا قبرستانوں کی طرح قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کا بھی حامل ہے۔یہ اٹھارویں صدی کا گورا قبرستان ہے۔جو کہ چرچ آف پاکستان کے زیر نگرانی ہے۔اسکے گرد اور سامنے کی جانب دھرم پورہ کی آبادی ہے۔
اس گوارا قبرستان کی بنیاد 1815 ء میں رکھی گئی۔یہ صرف برطانوی فوج کے لئے مختص کیا گیا تھا ۔جہاں مختلف معرکوں اور لڑائیوں میں کام آنے والے فوجیوں کو دفن کیا جاتا تھا۔
میجر اے ایف بوؤگے پہلے شخص ہیں جنہیں یہاں دفن کیا گیا ۔انکی قبر کا نشان گم ہو چکا ہے۔ البتہ 1830 کی انفرادی قبروں کا کتبہ ابھی موجود ہے۔اسکے بعد بہت سے اعلی فوجی افسران کی قبریں یہاں موجود ہیں ۔مگر ان سب کے نشانات ختم ہو چکے ہیں ۔چند ایک نشانات دیکھنے کو ملتے
ہیں۔
اس
قبرستان کی چار دیواری دیگر تاریخی مقامات کی طرح چھوٹی اینٹوں اور چونے گارے سے تعمیر کی گئی تھی۔جوکہ اب موجود نہیں ہے۔البتہ بعض پرانی قبروں کے سرہانے پر چھوٹی اینٹوں سے بنے نشانات دیکھنے کو بہ آسانی ملتے ہیں ۔گیٹ سے اندر جا کر دائیں جانب ایک چھوٹی اینٹوں سے بنی شکستہ عمارت کے کھنڈر نظر آتے ہیں ۔جس کے دائیں جانب دیوار پر ایک کراس نصب ہے جس پر 1815 کی تاریخ درج ہے۔یہ دراصل اس قبرستان کا داخلی درازہ تھا ۔اس دروازہ کی ڈیوڑھی تقریبا مغل مقبروں کی مانند بنائی تھی۔جسکو شہزادی نادرہ بیگم کے مقبرے کی ماندہ عمارات سے حاصل ہونے والی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔جسے سلطان ٹھیکے دار نے مقبرے کی دیگر عمارت کو گرا کر ان سے نکال لی تھیں ۔اس ڈیوڑھی کے دونوں جانب چھوٹی کمرہ نما حجرے تھے ۔جس میں گورگن اور چوکیدار کا قیام ہوتا تھا ۔جبکہ دوسرا انتظامیہ کا دفتر تھا ۔البتہ اسکے کھنڈرات اب بھی باقی ہیں ۔
اس قبرستان میں صرف چار پانچ قبروں کے گرد آہنی حفاظتی جنگلے جوکہ پرانے زمانے کے ہیں ان پر بنے کراس کے نشان سے لگتا ہے جن کو کم از کم 150 سال گزر چکے ہیں۔ان حفاظتی جنگلوں کی بدولت یہ قبریں زمانے کی خرد برد سے محفوظ رہ گئیں۔اس قبرستان میں صرف نیم کے درخت ہیں ۔اس کا رقبہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے۔کچے پکے راستے اور پگڈنڈیاں بنی ہیں ۔اسکے دائیں جانب قبرستان کے انچارج کی رہائش ہے۔اسکے قریب ہی ایک پورے احاطے میں برطانوی فوجی جوانوں کی ایک ہی طرز پر تعمیر کردہ قبریں ہیں ۔جن پر انکے نام اور نمبردرج ہیں ۔جن میں سے زیادہ تر کتبے ٹوٹ چکے ہیں ۔ان میں سے ایک قبر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ قبر ایک باکسر چیمپئن کی ہے جس پر لوہے کی پلیٹ ہوتی تھی جسکو نشیؤں نے اتار کر بیچ دیا ۔جس کی وجہ سے وہ قبر بھی اپنا نشان کھو بیٹھی۔
قبرستان کے مین گیٹ سے سامنے والی سائیڈ پر دیوار کے قریب ایک قبر ہے جوکہ گم نام ہو چکی ہے۔اسکا کتبہ بھی گر چکا ہے۔جبکہ یہ چھوٹٰی اینٹ سے بنی قبر زمین کی سطح سے ایک با لشت اونچی ہے۔جسکے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ یہ قبر ٹیپو سلطان کو شہید کرنے والے فوجی افسر جنرل
ہیئرس کی ہے۔
قبرستان کے بائیں جانب والے ابتدائی حصے میں انگریز فوجی افسران کی آرمگاہیں ہیں۔جو مختلف معرکوں اور جنگوں میں مارے گئے یہ چھوٹی اینٹوں
سے بنی قبریں زمین سے دو،تین فٹ بلند خستہ حال ہیں۔کچھ گر چکی ہیں ۔کچھ گرنے کی منتظر ہیں ۔ان برجی نما قبروں کے کتبے غائب ہو چکے ہیں ۔جو چند ایک موجود ہیں ان کی لکھائی مدہم ہو چکی ہے۔ اکثر قبریں زمین میں دھنس گئی ہیں جنکا نام پڑھنا نا ممکن ہے۔یہاں کچھ قبریں لمبی بنائی گئی ہیں مینار کی مانند مگر وہ زمین پر دراز ہیں ۔جنکے الفاظ بھی مٹ چکے ہیں ۔
یہ قبرستان اسی طرح برطانوی حکومت کی سر پرستی میں رہا ۔مگر1947ء میں قیا م پا کستا ن کے بعد اس قبر ستا ن کو بند کر دیا گیاکئی عر صہ بند رہنے کی وجہ سے ویرا ن اور اجڑگیا ۔بعد ازاں مسحیے عوا م کے پرُ زور مطا لبے پر کھو ل دیا گیا۔پھر یہ قبر ستا ن علا قے کے مسحیے عو ا م کے زیر استعما ل آ گیا ۔ یہ قبر ستا ن چرچ آف پا کستان کے زیرِ نگرانی ہے ۔1974 ء میں سردار ڈیوڈ مسیح جو کہ جنرل اسپتال ،گلا ب دیوی اسپتا ل میں میل نر س تھے۔سردار ڈیو ڈ مسیح نے اپنے زندگی کے آخر ی سا ل اس قبر ستان کی خدمت میں گزارے اس قبرستان کے ویران ہونے کے با عث یہا ں چھٹی کے رو زآبا دی کے نو جوانوں کی بہت بڑی تعداد اس جگہ کر کٹ کھیلنے آتی تھی جس کے با عث نئی قبر یں خر ا ب ہو جا تی تھی جبکہ پرانے کتبے بطور وکٹ استعمال ہوتے تھے ۔ قبرستان کے خادم سردار ڈیوڈ مسیح نے احترام قبرستان کی خا طر نوجوانوں کی منع کیا ۔جس پر ایک مشتعل نوجوان نے انکو پتھر دے مارا ،جوکہ انکی آنکھ پر لگا جس سے ان کی آنکھ ضائع ہو گئی ۔اور اگلے سال انکی موت واقع ہو گئی ۔انکی قبر بھی یہاں ہی ہے۔انکی وفات کے بعد انکے بیٹے سلیمان سردار مسیح اس قبرستان کی خدمت پر مامور ہوئے ۔اور اس قبرستان کی حالت کو سدھارنے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد قرار دیا۔
اس دوران کیپٹن ثناء اللہ ایم این اے نے بھی اس جگہ کی دیکھ بھال کے لئے امداد فراہم کی مین گیٹ کے دائیں جانب انکے نام کی تختی نصب ہے۔فرنٹ دیوار اور جنازگاہ کی تعمیر کیلئے مسیحٰی ایم این اے طارق سی قیصر نے تعمیر وطن پروگرام سے فنڈز لے کر کام مکمل کروایا ۔گیٹ کے
بائیں جانب سنگ بنیاد جناز گاہ کا کتبہ نصب ہے جس پر طارق سی قیصر کا نام رقم ہے۔
اس قبرستان کی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے سلیمان مسیح نے اپنے حلقہ احباب کو جمع کیا اور اس قبرستان کے لئے عملی کام کرنے پر اکسایا ۔اس غرض سے 2002 ء میں ایک گورا قبرستان کمیٹی بنائی گئی ۔جس میں سلیمان مسیح اس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری بنے ۔انہوں نے اس قبرستان کی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کے لئے کمیٹی ممبران کو عہدے تقسیم کئے اور مختلف اخبارات میں اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا ۔اس کمیٹی کی کو ششوں کی وجہ سے جلد ہی اس قبرستان سے کر کٹ بازی اور پتنگ بازی بند کروا دی گئی ۔سلیمان مسیح کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے کچھ قبضہ گروپ یہاں قابض تھے ان سے قبرستان کی جگہ وا گزار کروا ئی ۔یہاں کی قدیمی قبریں زیادہ تر اٹھارویں صدی کی ہیں ۔جوکہ اپنے زمانے میں نہایت شاندار بنائیں گئی تھیں ۔مگر آج انکی حالت نہایت پسماندہ ہے ۔اکثر قبروں سے قیمتی پتھر چوری ہو چکا ہے ۔جن کی وجہ سے بے شمار تاریخی شخصیات کی قبریں گم نام ہو کر رہ گئی ہیں ۔البتہ کچھ پرانی قبروں پر کتبے باقی ہیں ۔ان پر لگے پتھروں کی لمبائی ، لکھائی اور خوبصورتی دیکھ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ تاریخی اور خوبصورت کتبے زمانے کے ظلم و استبداد کا شکار ہو گئے ہیں۔جنکو سامنے کے رہائشی علاقے کے لوگوں نے اپنے گٹروں پر بطور سلیب رکھا تھا ۔ جن میں سے کافی کتبے سلیمان مسیح کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے محفوظ ہو گئے ہیں جوکہ انہوں نے آبادی کے گٹروں سے جمع کئے ہیں ۔جس میں سب سے قدیم کتبہ 1838 ہے ۔جو کہ اجتماعی قبر کا ہے۔یہ قبرستان کہنے کو چرچ آف پاکستان کے زیر نگرانی آتا ہے مگر آج تک کوئی بھی چرچ ، پادری ، سیاسی راہنما یا دیگر کوئی عیسائی تنظیم اپنے اس تاریخی ورثے کو محفوظ نہیں کر سکی ۔ہمارا یہ ورثہ بھی
دیگر دوسری قدیم عمارات کی طرح خصوصی توجہ کا طالب ہے۔